ا اللہ !!میری بیٹی ماں پہ نہ جائے
ھر لوو میرج کرنے والے مرد کی خواہش
(المیہ)
شادی بیاہ نہایت ضروری اور نازک معاملہ ہے۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں، جسے جب چاہا بنایا اور جب چاہا ختم کر دیا۔ اس کے لیے تجربے کاروں کے تجربے سے فایدہ اٹھانا ناگزیر ہے، تاکہ آگے چل کر پچھتانا نہ پڑے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے ماں باپ اور مخلص اساتذہ وغیرہ اس بابت سب سے اہم رول ادا کرتے ہیں
A story of a girl
وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ماں باپ بیچاروں نے بڑے لاڈ و پیار سے اس کی پرورش کی۔جوان ہوئی تو والدین کی رضامندی کے بغیر ایک بس ڈرائیور سے خفیہ نکاح کر لیا۔باپ کو جب پتہ چلا تو بیٹی نے جواب دیا۔
“میرا نکاح ہو چکا ہے،بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں مجھے رخصت کر دیں ورنہ میں خود ان کے پاس چلی جاوں گی؟”
باپ نے کہا کہ اگر آپ کا یہ حتمی فیصلہ ہے تو آپ نے گھر سے جو کچھ لینا ہے،لے لیں اور خود ہی اپنے شوہر کے پاس چلی جاو۔لیکن یہ یاد رکھنا،اب آپ کا ،ہم سے،اور ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔آپ ہمارے لیے مر گئیں اور ہم اپ کیلیے؟
وہ خوشی خوشی سامان پیک کرکے اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔تقریبا آٹھ سال بعد اس کی ملاقات ایک قریبی عزیز سے ہوئی اور وہ اسے اپنے گھر لے آیا۔
خیر خیریت دریافت کرنے کے دوران اس نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔وہ سمجھا کہ شاید گھر کے حالات صحیح نہیں ہوں گے۔والدین کی نافرمانی اور جدائی کا پچھتاوا اسے رلائے جا رہا ہو گا ۔تمام گھر والے اسے دلاسے دینے لگے اور رونے کی وجہ دریافت کرنے لگے۔بہت اصرار کے بعد اس نے رونے کی وجہ بتائی۔وہ کچھ یوں گویا ہوئی۔
میں نے والدین کی نافرمانی کی،ان سے تمام تعلقات ختم ہو گئے۔اس کا پچھتاوا تو مجھے ساری زندگی رہے گا ۔مالی لحاظ سے بھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔
لیکن میرے لیے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ کچھ اور ہے۔میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔میرے شوہر جب نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگتے ہیں تو میں نے چپکے سے کئی بار ان کی دعا سنی ہے۔وہ روتے ہوئے اور گڑگڑاتے ہوئے اللہ پاک سےصرف ایک ہی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔
“یا اللہ !!میری بیٹی ماں پہ نہ جائے!
یااللہ!!یہ اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ کے کبھی شادی نہ کرے۔یہ اپنی ماں کی طرح اپنے والدین کی عزت کو کبھی رسوا نہ کرے
• یہ دعا تمام لڑکوں اور لڑکیوں کیلیے ایک پیغام ،ایک نصیحت اور ایک اعلان ہے۔
اگر والدین ایسی جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں' جہاں لڑکے یا لڑکی کی طبیعت بالکل آمادہ نہیں اور وہ جانتا ہے کہ حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکے گا، نباہ نہیں ہوگا، جو کہ والدین کے لیے بھی کوفت کا سبب بنے گا، اس مجبوری سے وہ وہاں شادی سے انکار کر دے تو ان شاء اللہ وہ نافرمانی کا گنہگار نہیں، مگر نرمی سے والدین کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے پوری بات اُن کے سامنے پیش کردے ، پھر بتادے کہ فلاں جگہ شادی کرنا مناسب ہے ، گو خود بھی ایجاب وقبول سے نکاح ہوجائے گا، مگر والدین کے مشورہ سے اور اُن کے انتظام سے ہو، تو اُن کے لیے زیادہ خوشی کی بات ہے ۔
نوٹ۔ہمارا مقصد صرف پیغام پہنچانا ہے۔۔