Home Top Ad

Responsive Ads Here

عشق ‏مجنوں ‏ ‏بابا ‏فرید ‏کی ‏زبانی ‏



*مجنوں کی عشق کی حقیقت۔

بابا فرید رحمتہ اللّہ علیہ اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ:

'' ایک مرتبہ غمِ فرقت اور حالتِ ہِجر و فراق میں مجنُوں کا بُرا حال ہو گیا۔محبّت نے شِدّت اِختیار کر لی۔مجنُوں لیلیٰ کے اشتیاق میں ہر وقت اسی کا ذِکر کرتا،اسی کے لیے روتا اور تڑپتا۔ ''

محبّت کے جوش اور عِشق کے شعلوں نے جب زور پکڑا تو مجنُوں کے اہلِ خاندان بے بس اور مجبور ہو گئے اور ان کے پاس اس کے سِوا کوئی چارۂ کار نہ رہا کہ لیلیٰ کے قبیلے والوں سے کہا جائے کہ:

" وہ مجنوں کو ایک بار لیلیٰ کا دیدار کرا دیں تاکہ اس کی آتشِ عِشق ٹھنڈی پڑ سکے۔ ''

چنانچہ جب لیلیٰ کے خاندان والوں کو یہ کہا گیا تو انہوں نے بالآخر اُن کی درخواست منظور کر لی۔لیکن اُنہیں سمجھایا کہ:

'' ہم تو لیلیٰ کو مجنوں کے سامنے لے آئیں گے مگر مجنُوں اس دیدار کو برداشت نہ کر سکے گا۔ ''
لیکن انہوں نے اِصرار کِیا کہ:

'' کوئی بات نہیں اس کے ہم ذمہ دار ہیں آپ لیلیٰ کو ایک بار دِکھا دیں۔ ''

کہتے ہیں کہ:
'' جب وہ لوگ مجنُوں کو لیلیٰ کے حرم میں لے گئے اور لیلیٰ کو پردے میں اس کے قریب لایا گیا ابھی اس کا سراپا سامنے نہیں آیا تھا فقط لیلیٰ کے جِسم کا سایہ مجنُوں نے دیکھا،بس سائے پر نظر پڑی تھی کہ مجنُوں بے ہوش ہو کر زمین پر گِر پڑا اور تڑپنے لگا اور اس وقت تک ہوش میں نہ آ سکا جب تک لیلیٰ کو وہاں سے واپس نہیں لے جایا گیا۔ ''

یہ مجنُوں کی مجازی محبّت کی ایک جھلک تھی جو محبوب کا دیدار تو کجا اس کا سایہ دیکھ کر ہی بے ہوش ہو جاتا تھا۔

اِس واقعہ کے راوی کہتے ہیں کہ:
'' حضرت بابا فرید رحمتہ اللّہ علیہ نے جب مجنُوں کی یہ بات بتائی تو خود اُن کی ایک بلند چیخ نِکلی،انہوں نے نعرہ مارا اور بے ہوش ہو گئے۔ ''

جب ہوش میں آئے تو زبان پر یہ شعر جاری تھا:

گرمی مذید ہِجر تو وصلت یارم
باخاکِ سر کوئے تو کارے دارم

'' اے محبوب! اگرچہ تیرے فراق میں وصل کی اُمید نہیں
پِھر بھی تیری گلی کی خاک سے میرا رابطہ برقرار ہے ''

ذِکر بِلاشُبہ لیلیٰ اور مجنُوں کا تھا مگر عشّاق مجاز کا ذِکر کرتے ہی حقیقت کے لیے ہیں۔اِسی لیے انہوں نے حاضرین کو محبّت کا تصوّر واضح کرتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی۔لیکن جب اپنا خیال آیا ہو گا کہ:

'' اے فرید! تُجھ سے تو وہ مجنّوں اچھا تھا جو مجازی محبوبہ کے دیدار کا اِس قدر مشتاق اور تمنّائی تھا کہ اس کا سایہ بھی نہ دیکھ سکا،اور کہاں میرا محبوبِ حقیقی خالقِ کائنات،تُجھے تو اس حقیقی محبوب کے سامنے جانا ہے۔اس وقت حُسنِ مطلق کے دیدار کا عالم کیا ہو گا اور تیرا حال کیا ہو گا؟ بس یہ سوچتے ہی چیخ نِکل گئی۔ ''